Thursday, December 8, 2011

سیدہ فاطمہ بنت الحسین ؑ (سیدہ سکینہ ؑ ) کا عظیم الشان خطبہ


مولا علی ؑ کی پوتی مولا حسین ؑ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ بیت الحسین ؑ جو تاریخ میں سیدہ سکینہ ؑ کا نام سے معروف ہیں اور جن کا سن مبارک صرف ۴ برس کا تھا آپ ؑ نے کوفہ میں ایک ایسا عظیم خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل کوفہ آپ ؑ کی بلاغت و فصاحت پر دنگ رہ گئے اس خطبہ نے لوگوں کے دلوں کو کاٹ ڈالا اور لوگ غم کے سمندر میں غوطہ زن ہوگئے اس خطبہ کا لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر پڑا اور ان کو احساس ہوا کہ ان سے کتنا بڑا گناہ عظیم سرزد ہوگیا تھا ۔

خطبہ کا اصل متن ۔

حمد ہے اللہ کی ریت کے ذروں اور سنگریزوں کے برابر ،عرش کے وزن سے لے کر زمین تک میں اس کی حمد بجا لاتی ہوں ،اس پر بھروسہ کرتی ہوں ،گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں اور محمد ؐ اللہ کے عبد اور رسول ہیں اور آپ ؐ کی طاہر اولاد کو فرات کے کنارے پیاسا ذبح کر دیا گیا ۔

اے اللہ ! تو نے اپنی مخلوق سے علی ابن ابی طالب ؑ کی ولایت کا عہد لیا اور ان کو اس عہد کی وصیت کی لیکن مخلوق نے تیرا یہ عہد توڑ ڈالا اور آپ ؑ (امیرالمومنین ؑ ) کے حق کو غصب کر لیا گیا اور آپ ؑ کو شہید کر دیا جیسے کل انہی کے بیٹے (حسین ؑ ) کو شہید کیا گیا ۔

اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دادا ؑ کو تیرے گھر میں شہید کیا گیا جس میں دیگر مسلمان بھی موجود تھے اور انہوں نے اپنی زبانوں سے ان کی مظلومی کا اقرار کیا ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا گیا لیکن انہوں نے تیری خاطر صبر سے کام لیا اور وہ اس حال میں دنیا سے گئے کہ ان کی حمد بیان کی گئی اور ان کے فضائل و مناقب ہر جاہ معروف ہیں اور کوئی بھی ان کے مقام تک نہیں پہنچ سکا ۔

اے اللہ ! میرا سن بہت چھوٹا ہے اور میرے دادا کے مناقب بہت عظیم ہیں میں اس پر ان کی تعریف کرتی ہوں اے اللہ تو جانتا ہے میرے دادا نے ہمیشہ تیری توحید اور تیرے رسول کی حفاظت کی اور آپ ؑ کو دنیا سے کوئی غرض نہ تھی آ پؑ نے تیری راہ میں جہاد کیا اور تو نے ان کو چن لیا اور اپنی صراط مستقیم قرار دیا ۔

اے کوفیوں ! اے مکروفریب اور دھوکہ دینے والو ! اللہ نے ہم اہل بیت ؑ کے ذریعے تمہارا امتحان لیا اور تم کو ہمارے ذریعے آزمایا اور ہماری آزمائش کو حسن قرار دیا ۔

اللہ نے اپنا علم ہمیں ودیعت فرمایا ،ہم اس کے علم کے امانتدار ہیں اور ہم ہی اللہ کی حکمت کے مخزن ہیں اور ہم ہی آسمان و زمین پر اللہ کی حجت ہیں اللہ نے ہمیں اپنی کرامت سے شرف بخشا اور ہمیں ہمارے جد محمد ؐ کے ذریعے اپنی ساری مخلوق پر فضلیت بخشی ۔

تم نے ہمیں جھٹلا کر اللہ سے کفر کیا اور تم نے ہمارا قتل حلال جانا اور ہمارے مال کو لوٹا گویا ہم اولاد رسول ؐ نہیں کہیں اور کے رہنے والے ہیں اور جس طرح کل تم لوگوں نے ہمارے دادا ؑ کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپکا ہے کیونکہ تمہارے سینوں میں ہمارا بغض و کینہ بہت عرصے سے پرورش پا رہا تھا تم نے ہمیں قتل کرے کے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ پر افتراء باندھا اور تم نے فریب کیا اللہ فریب کرنے والوں کے فریب کو ناکام بنانے والا ہے تم نے جو ہمارا خون بہایا ہے اس سے اپنے نفسوں کو خوش نہ کرو اور جو تم نے ہمارا مال لوٹا ہے اس سے بھی تمہیں کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ہمیں جو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ اللہ کی محکم کتاب میں پہلے سے ہی مذکور تھا ۔ہم پر ظلم و ستم ڈھا کر خوش نہ ہو بے شک اللہ تکبر اور غرور کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے ۔

تمہارے لیے ہلاکت ہو عنقریب تم لعنت اور عذاب نازل ہوگا اور وہ تمہارا مقدر بن گیا ہے اور آسمان سے کثرت کے ساتھ تم پر عذاب آئیں گے اور تم عذاب عظیم دیکھو گے اور سختی کا تلخ ذائقہ چکھو گے اللہ کی ظالمین پر لعنت ہو ۔۔

تمہارے لیے ویل ہےہم جانتے ہیں کہ کس نے ہماری اطاعت کی کس نے ہمارے ساتھ جنگ کی کون ہماری طرف خود چل کر آیا تم تو ہمارے ساتھ جنگ چاہتے تھے تمہارے دل سخت ہوگئے تمہارے جگر غلیظ ہوگئے اللہ نے تمہارے دلوں ،کان،آنکھوں پر مہر لگا دی تمہارا پیشوا شیطان ہے جس نے تمہاری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور تم ہدایت سے دور ہوگئے ۔۔

اے کوفیو ! تمہارے لیے ہلاکت ہے تمہاراسول اللہ ؐ نے کیا برا کیا تھا جس کے بدلے میں تم نے اس کے بھائی اور میرے دادا علی ابن ابی طالب ؑ کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا اور اس کی پاک عزت کے ساتھ کیا ؟ ہمارے قتل اور ہمیں قیدی بناکر تم فخر کرتے ہو کیا یہ امت اس پاک گھرانے کے قتل پر فخر محسوس کرتی ہے جسے اللہ نے پاک و پاکیزہ بنایا اور ہر رجس کو ان سے دور رکھا ؟ہر شخص کو وہی ملتا ہے جسے وہ کسب کرتا ہے اور جو وہ آگے بھیجتا ہے ۔

تمہارے لیے ویل ہے تم نے ہم پر حسد کیا جو اللہ نے ہمیں عظمت و فضیلت عطا کی تھی وہ تمہارے حسد کا نشانہ بنی اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے وہ صاحب فضل عظیم ہے جس کے لیے اللہ نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نور ہو ہی نہیں سکتا ۔

نبوت اور امامت کی پروردہ نے اپنےاس عظیم خطبے میں چند اہم امور پر گفتگو فرمائی ہے ۔

۱۔سیدہ سکینہ ؑ نے اپنے دادا امیرالمومنین ؑ کی ولایت کے عہد کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا اور آپ ؑ کے مصائب کی طرف اشارہ کیا اورجو حق ہے اور زمین پر مجسمہ عدل ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے گھر میں شہید کر دئیے گئے ۔امیرا لمومنین ؑ وہ شخصیت ہیں جن کو اللہ نے چن لیا اور اپنی صفات وفضائل و مناقت سے آپ ؑ کو مخصوص کر دیا ۔

۲۔سیدہ سکینہ ؑ نے اہل بیت ؑ کے مصائب کا ذکر فرمایا ان پر اللہ کا سلام ہو وہ امت کے روحانی پیشوا ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ کس نے ان کی نصرت کی اور کس نے دشمنی اور امت نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور جس طرح آل محمد ؑ کا خون بہایا اور جس طرح آل محمد ؑ نے مصائب و آلا م برداشت کئے ۔

۳۔اہل بیت ؑ پر کی جانے والی زیادتیوں کا بیان کیا کہ ظالم مسلمانوں نے کتنا ظلم ڈھایا اور ان کو اللہ کے سخت ترین عذاب کی نوید بھی سنائی ۔

خطاب کا اثر ۔

لوگوں کے نفوس میں اس خطاب کا گہرا اثر ہوا جس نے لوگوں کے دل جلنے لگے اور آنکھوں سے آنسو برسنے لگے اور لوگ روتے ہوئے کہہ رہے تھے اے طاہرین کی بیٹی ! خدارار اپنے کلام کو روک دیجئے آپؑ نے ہمارے دلوں میں آگ لگادی اور ہمارے سانس ہمارے حلق میں اٹک گئے ہیں اور ہمارے آنسو سمندر کی طرح جاری ہو گئے خدارا اپنے مصائب کے کلام کو روک دیجئے ہماری بدبختی کو اور بیان نہ کریں ہم لوگوں نے انتہائی سخت گناہ کیا ہے ۔

(حیات الامام الحسین ؑ سید محمد باقر قرشی جلد ۳ ص۲۳۰،سیرت سیدہ زینب الکبری ؑ ، تاریخ الحسین ؑ )


No comments: